ads

اسلامی واقعات (قسط نمبر چھ)

اسلامی واقعات (قسط نمبر چھ)

صلہ رحمی کا ایک عجیب واقعہ

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خیرات کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ اور کچھ نہ ہو تو زیور ہی خیرات کریں. حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ حکم سن کر اپنے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو. اگر کچھ حرج نہ ہوتو جو کچھ مجھے خیرات کرنا ہے وہ میں تمہیں کو دے دوں.تم بھی محتاج ہو، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی عنہ نے کہا! ور تم جا کر پوچھو.

یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر حاضر ہوئیں. وہاں دیکھا کہ ایک بی بی اور کھڑی تھیں، اور وہ بھی اسی ضرورت سے آئی تھیں. ہیبت کے مارے ان دونوں کو جرات نہ پڑتی تھی کہ اندر جا کر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتیں. حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکلے تو ان دونوں نے کہا کہ حضرت سے جا کر کہو، دوعورتیں کھڑی پوچھتی ہیں کہ ہم لوگ اپنے خاوندوں اور یتیم بچوں پر جو ہماری گود میں ہوں صدقہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتے چلتے یہ بھی کہہ دیا کہ تم یہ نہ کہنا کہ ہم کون ہیں.

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون پوچھتا ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ایک قبیلہ انصاری کی بی بی ہے. اور ایک زینب (رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون زینب؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہہ دو کہ ان کو دوہرا ثواب ملے گا قرابت کی پاسداری کا علیحدہ اور صدقہ کرنے کا علیحدہ. (بخاری ومسلم)

امام محمد رحمہ اللہ کا یادگار کا رنامہ

امام محمد رحمتہ اللہ علیہ جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں، یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سارے فقہی احکام اپنی تصانیف کے ذریعہ ہم تک پہنچائے. ان کا احسان ہمارے سروں پر اتنا ہے کہ ساری عمر تک ہم ان کے احسان کا صلہ نہیں دے سکتے. ان کی لکھی ہوئی کتابیں کئی اونٹوں کے بوجھ کے برابر تھیں.

کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! آپ نے بہت ساری کتابیں لکھیں ہیں، لیکن تصوف اور زہد کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی؟ امام محمدرحمہ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ تم کیسے کہتے ہو کہ میں نے تصوف پر کتاب نہیں لکھی. میں نے جو "کتاب البیوع" لکھی ہے، وہ تصوف ہی کی تو کتاب ہے. مطلب یہ تھا کہ خرید وفروخت کے احکام اور لین دین کے احکام حقیقت میں تصوف ہی کے احکام ہیں.

اس لئے کہ زہد اور تصوف در حقیقت شریعت کی ٹھیک ٹھیک پیروی کا نام ہے اور شریعت کی ٹھیک ٹھیک پیروی خرید و فروخت اور لین دین کے احکام پر عمل کرنے سے ہوتی ہے.. (انمول موتی)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حق گوئی

تا تاری نومسلم سردار قازان نے شہر دمشق پر دھاوا بول دیا تھا. پورے شہر میں ہراسانی کی ایک لہر دوڑ گئی. حاکم شہر ملک ناصر نے راہ فرار اختیار کی. اور اس کے پیچھے علماء، فقہاء، اور تجار وغیرہ سب کے سب دمشق چھوڑ کر مصر کی طرف بھاگنے لگے.

افراتفری کے اس عالم میں حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک وفد ترتیب دے کر قازان سے ملاقات کی. اللہ کے اس شیر نے بڑی بے باکی کے ساتھ کہا. "قازان ! تم مسلمان ہو کر ہمارے ساتھ ایسا نازیبا سلوک کر رہے ہو؟ حالانکہ تمہارے کا فر باپ دادا نے کبھی ایسا نا روا برتاؤ ہم سے نہیں کیا. انہوں نے وعدہ کیا، اور اس کو نبھایا. تم نے وعدہ کر کے تو ڑ دیا۔۔۔“

امام کی گفتگو اتنی تیز اور جوشیلی تھی، کہ وہ باربار قازان کے قریب ہو جاتے، اور ان کے گھٹنے اس کے گھٹنوں کے ساتھ ٹکرا جاتے. اس شدت گفتار کو دیکھ کر اراکین وفد کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ قازان ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کوقتل کرنے کا حکم دے دے گا.

پھر کچھ دیر بعد قازان کے حکم سے دستر خوان چن دیا گیا. وفد کے تمام لوگ کھانے میں شریک ہو گئے. لیکن امام موصوف نے انکار کر دیا. قازان نے وجہ دریافت کی تو آپ نے صاف صاف کہہ دیا.

"دسترخوان کی تمام چیز میں لوٹ مار، اور غارت گری کے مال سے بنی ہیں، میں یہ حرام کھانا نہیں کھا سکتا."

متعلقہ موضوع