اسلامی واقعات (قسط نمبر سات )
ماں کے پیروں کا پانی پینے سے شفا
ڈاکٹر نیاز احمد بلوچ پروفیسرنشتر میڈیکل کالج ملتان نے عجیب واقعہ لکھ کردیا... ڈاکٹر بلوچ صاحب ملتان سے باہر امتحان لینے گئے ہوئے تھے ... وہاں پر ان کے بھائی کی شدید علالت کا پتہ چلا وہ پہلے ڈیرہ غازیخان گئے جہاں سے ان کو بتلایا گیا کہ ان کے بھائی سخت بیمار تھے اس لئے نشتر ہسپتال میں داخل کرا دیا... ڈاکٹر بلوچ صاحب جب نشتر ہسپتال پہنچے تو بھائی صاحب کا پتہ چلا کہ دل کا شدید عارضہ ہے ... حالت کمزور ہے ... سارے جسم پر ورم ہے اور سانس پھولا ہوا ہے ... متعلقہ ڈاکٹر صاحبان بھی اچھی خبر نہیں دے رہے تھے ... ڈاکٹر بلوچ صاحب نے دیکھا کہ اس کے علیل بھائی اپنی والدہ جو سامنے پلنگ پر بیٹھی ہیں ان کے پیروں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں .... میں نے دیکھا والدہ صاحبہ کے پاؤں کا جوتا ایک جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا اور اشارہ اس کی طرف تھا تو انہوں نے اپنے علیل بھائی کو بتلایا کہ میں جوتا ٹھیک کرادوں گا مگر انکے علیل بھائی بار بار والدہ کے قدموں کی طرف اشارہ کر رہے تھے میں نے بھائی کے قریب ہو کر پوچھا کہ پاؤں میں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میری ماں کے پاؤں کو دھو کر وہ پانی مجھے پلاؤ میں ٹھیک ہو جاؤں گا ... چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا .... والدہ کے پاؤں کا پانی پلانے کے بعد جو پیشاب کا جلاب میرے بھائی کو جاری ہوا ہم سب حیران تھے جیسے پیشاب آور ٹیکہ لگا ہو...ہ یہ پیشاب کا جلاب سارا دن اور ساری رات جاری رہا ...
دوسرے دن صبح کے وقت جب ماہر امراض قلب میرے بھائی کودیکھنے آئے تو کافی افاقہ تھا۔ مجھ سے پوچھا یہ کیسے ہوا؟ میں نے پاؤں کے پانی کا اثربتلایا ... سب حیران تھے ... چند دنوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی کو شفادی ..... سب والدہ صاحبہ کے پیروں کا صدقہ تھا .... پروفیسر ڈاکٹر نور احمد نور صاحب لکھتے ہیں: کافی سال قبل میں اپنی والدہ صاحبہ کو جو راجن پور میں بیمار تھیں دیکھنے کیلئے جایا کرتا تھا۔ ایک دن جمعہ کے دن میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضری دی ... واپسی پر دعا کی درخواست کی تو بڑی دعائیں دیں ... واپسی پر دریائے سندھ پار کرنے کے بعد ایک بہت بڑی گہری نہر جو تقریباً ۲۰ فٹ گہری اور ۳۰ فٹ چوڑی پانی سے لبالب بھری ہوئی بہہ رہی تھی جمعہ کی نماز کا وقت ہو چکا تھا... گاڑی کھڑی کر کے ڈرائیور تو وضو کر کے نماز میں شریک ہو گیا... میں نے استنجاء کیا اور نہر کے کنارے بیٹھ کر وضو کر رہا تھا کہ اچانک نہر کا کنارہ جو شاید نیچے سے پانی نے کھوکھلا کر دیا تھا پانی میں گرا اور میں نہر کے اندر گرگیا... ایک دوڈو بکیاں آئیں میں نہر کے وسط میں پہنچ گیا۔ کیونکہ میں تیرنا نہیں جانتا تھا اس لئے ڈوبکیاں آنی شروع ہوئیں اور سر چکرانے لگا۔ میں نے شور مچایا مگر سوائے جانوروں کے جو نہر کے کنارے بیٹھے تھے کوئی اور تھا ہی نہیں .... میرا ڈوب جانا یقینی ہوگیا .... میں نے ایک ہاتھ دیکھا جس نے مجھے پکڑا اور نہر کے درمیان سے گھسیٹ کر نہر کے کنارے پر کر دیا۔ اب نہر سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ خیر بڑے ذکر اذکار کئے کئی دفعہ زور لگایا اور آخر میں نہر سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا .... کپڑے سارے گیلے ہوگئے ... کیچڑ لگ گئی ... اسی حالت میں نماز کی آخری رکعت مل گئی۔ تمام مسجد والوں نے میری حالت دیکھ کرحیرانگی ظاہر کی ... مجھے یقین ہے مجھے ڈوبنے سے بچانے والی والدہ مرحومہ کی دعا تھی ورنہ بچنے کے کوئی ظاہری اسباب نہیں تھے ... (ماہنامہ "محاسن اسلام“ جنوری 2009 ء)
کفن چور کا واقعہ
ایک اندھا بھکاری تھا ... جو اپنی آنکھیں چھپائے رکھتا تھا ۔۔۔ اس کا سوال کرنے کا انداز بڑا عجیب تھا .. وہ لوگوں سے کہتا تھا ... جو مجھے کچھ دے گا... اس کو ایک عجیب بات سناؤں گا... اور جوز ائد دے گا... اس کو ایک عجیب چیز بھی دکھاؤں گا... ابو اسحاق ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ... کسی نے اس کو کچھ دیا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو گیا ... اس نے اپنی آنکھیں دکھا ئیں... میں یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ اس کی آنکھوں کی جگہ دوسوراخ تھے ... جس سے آر پار نظر آتا تھا ... اب اس نے اپنی داستان حیرت نشان سنانی شروع کی ... میں اپنے شہر کا نامی گرامی کفن چور تھا اور لوگ مجھ سے بے حد خوفزدہ رہتے تھے ...اتفاق سے شہر کا مفلوج ہی امید نہ رہی تونے مجھے سو ۱۰۰ دینار بھجوا کر کہلا بھیجا .... دیناروں کے ذریعے اپنا کفن تجھ سے محفوظ کرنا چاہتا ہوں ... میں نے حامی بھر لی ...اتفاقا وہ تندرست ہو گیا ...کہ وہ عطیہ تو پہلے مرض کا تھا ... لہذا میں نے اس کی قبر کھود ڈالی... قبر میں عذاب کے آثار تھے ... اور قاضی (جج) قبر میں بیٹھا ہوا تھا ... اور اس کے بال بھرے ہوئے تھے .اورآنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ! اچانک میں نے اپنے گھٹنوں میں درد محسوس کیا... اور اچانک کسی نے میری آنکھوں میں انگلیاں گھونپ کر مجھے اندھا کر دیا اور کہا... اے دشمن خدا! اللہ تعالیٰ کے بھیدوں پر کیوں مطلع ہوتا ہے! (شرح الصدور )
چار سو سال تک مسلسل تلاوت قرآن
10 ویں ہجری میں جب سلطان سلیم کو خلافت ملی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات کو مصر سے استنبول لے آئے اور یہ اہتمام کیا کہ ” توپ کاپے سرائے میں ان کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک مستقل کمرہ تعمیر کیا اور اس کمرے میں خود اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے ... اس کے علاوہ اس کمرے میں انہوں نے حفاظ قرآن کو مقرر کیا کہ وہ چوبیس گھنٹے یہاں تلاوت کرتے رہیں ... حفاظ کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں اور ایک جماعت کا وقت ختم ہونے سے پہلے دوسری جماعت آکر تلاوت شروع کر دیتی تھی ... اس طرح یہ سلسلہ بعد کے خلفاء نے بھی جاری رکھا... اس طرح دنیا میں شاید یہ واحد جگہ ہے جہاں چار سو سال تک مسلسل تلاوت قرآن ہوتی رہی ہے اور اس دوران ایک لمحے کے لئے بھی بند نہیں ہوئی ...خلافت کے خاتمے کے بعد یہ مبارک سلسلہ بھی موقوف ہو گیا .... (جہاں دیدہ)