اسلامی واقعات (قسط نمبر پانچ)
دربار رسالت میں ایک والد کی فریاد کا واقعہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا. اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اپنے والد کو بلا کر لاؤ اس وقت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جب اس کا باپ آ جائے تو اس سے پوچھئے کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں۔ خود اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں نا. جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد سے کہا کہ کیا بات ہے؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے. کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں. والد نے عرض کیا کہ آپ اس سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایہ“ (جس کا مطلب یہ تھا کہ بس حقیقت معلوم ہو گئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں.)
اس کے بعد اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا. اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہر معاملہ میں اللہ تعالٰی آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں ( جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی آپ کو اطلاع ہوگئی جو ایک معجزہ ہے)
پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ ہمیں سناؤ،
اس وقت اس نے یہ اشعار سنائے:
(غَذَوتُكَ مَوْلُودًا وَّمُنْتَكَ يَافِعًا) (تُعَلُّ بِمَا أَجْنِي عَلَيْكَ وَتُنْهَلْ)
ترجمہ: "میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمہ داری اٹھائی، تمہار اسب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا."
(إِذَا لَيْلَةٌ ضَافَتُكَ بِالسَّقْمِ لَمْ أَبِتُ) (لِسَقْمِكَ إِلَّا سَاهِرًا أَتَمَلُمَلْ)
ترجمہ: "جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بے قراری میں گزاری."
(كَانِي أَنَا الْمَطْرُوقَ دُونَكَ بِالَّذِي) (طُرِقْتَ بِهِ دُونِي فَعَيْنِي تَهُمَلْ)
ترجمہ: "گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے تمہیں نہیں، جس کی وجہ سے تمام شب روتا رہا."
(تَخَافُ الرَّدَىٰ نَفْسِي عَلَيْكَ وَأَنَّهَا) (لَتَعَلَمُ أَنَّ الْمَوْتَ وَقُتٌ مُوْجُلُ)
ترجمہ: "میر ادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی،"
(فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنِّ وَالْغَايَةَ الَّتِي) (إِلَيْهَا مَدَى مَا كُنتُ فِيْكَ أُؤْمِلُ)
ترجمہ: "پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا۔"
(جَعَلْتَ جَزَائِي غِلُظَةٌ وَّفِظَاظَةٌ) (كَأَنَّكَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ)
ترجمہ: "تو تم نے میرا بدلہ بختی اور سخت کلامی بنا دیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو."
(فَلَيتَكَ إِذْ لَمْ تَرُعَ حَقَّ أُبُوَّتِي) (فَعَلْتَ كَمَا الْجَارُ الْمُصَاقِبُ يَفْعَلُ)
ترجمه: "کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم ایسا ہی کا لیتے جیسا کہ ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے."
(فَأَوْلَيْتَنِي حَقَّ الْجِوَارِ وَلَمْ تَكُنُ) (عَلَيَّ بِمَالٍ دُونَ مَالِكَ تَبْخَلُ)
ترجمہ: "تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا."
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا: "أنتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ" یعنی جا تو بھی اور تیرا مال بھی سب تیرے باپ کا ہے ... ( قرطبی)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ایک سردار سے ملاقات
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ شام کے ایک قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا. قلعہ کے لوگ محاصرہ سے تنگ آگئے تھے. وہ چاہتے تھے کہ صلح ہو جائے.
لہذا ان لوگوں نے قلعے کے سردار کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہکے پاس صلح کی بات چیت کے لئے بھیجا، چنانچہ ان کا سردار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آیا. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی شیشی ہے. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا کہ یہ شیشی میں کیا ہے، اور کیوں لے کر آئے ہو؟
اس نے جواب دیا کہ اس شیشی میں زہر بھرا ہوا ہے اور یہ سوچ کر آیا ہوں کہ اگر آپ سے صلح کی بات چیت کامیاب ہوگئی تو ٹھیک. اور اگر بات چیت نا کام ہوگئی اور صلح نہ ہو سکی تو نا کامی کا منہ لے کر اپنی قوم کے پاس واپس نہیں جاؤں گا بلکہ یہ زہر پی کر خودکشی کرلوں گا.
تمام صحابہ کرام کا اصل کام تو لوگوں کو دین کی دعوت دینا ہوتا تھا. اس لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوچا کہ اس کو اس وقت دین کی دعوت دینے کا اچھا موقع ہے، چنانچہ انہوں نے اس سردار سے پوچھا: کیا تمہیں اس زہر پر اتنا بھروسہ ہے کہ جیسے ہی تم یہ زہر پیو گے تو فورا موت واقع ہو جائے گی؟
اس سردار نے جواب دیا کہ ہاں مجھے اس پر بھروسہ ہے. اس لئے کہ یہ ایسا سخت زہر ہے کہ اس کے بارے میں معلمین کا کہنا یہ ہے کہ آج تک کوئی شخص اس زہر کا ذائقہ نہیں بتا سکا. کیونکہ جیسے ہی کوئی شخص یہ زہر کھاتا ہے تو فورا اس کی موت واقع ہو جاتی ہے اس کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ وہ اس کا ذائقہ بتا سکے. اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ اگر میں اس کو پی لوں گا تو فور أمر جاؤں گا.
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سردار سے کہا کہ یہ زہر کی شیشی جس پر تمہیں اتنا یقین ہے. یہ ذرا مجھے دو. اس نے وہ شیشی آپ کو دے دی. آپ نے وہ شیشی اپنے ہاتھ میں لی اور پھر فرمایا کہ اس کائنات کی کسی چیز میں کوئی تاثیر نہیں جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اندر اثر نہ پیدا فرمادیں. میں اللہ کا نام لے کر اور یہ دعا پڑھ کر" بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شئى فى الارض ولا في السماء وهو السميع العليم" ( اس اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ آسمان میں اور نہ زمین میں، وہی سننے اور جاننے والا ہے) میں اس زہر کو پیتا ہوں.
اب دیکھنا کہ مجھے موت آتی ہے یا نہیں. اس سردار نے کہا کہ جناب ! یہ آپ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں. یہ زہر تو اتنا سخت ہے کہ اگر انسان تھوڑا سا بھی منہ میں ڈال لے تو ختم ہو جاتا ہے، اور آپ نے پوری شیشی پینے کا ارادہ کر لیا. حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! ان شاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا، چنانچہ دعا پڑھ کر وہ زہر کی پوری شیشی پی گئے.
اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا تھا. اس سردار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری شیشی پی گئے لیکن ان پر موت کے کوئی آثار نظر نہیں ہوئے. وہ سردار یہ کرشمہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا.... (اصلاحی خطبات ج ۱۰)