اسلامی وا قعات (قسط نمبر چار)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چرواہے کی ملاقات
حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مد بینہ طیبہ کے نواح میں نکلے آپ کے ساتھ آپ کے شاگرد بھی تھے ( کھانے کا وقت ہواتو ) شاگردوں نے کھانے کے لئے دستر خوان بچھایا۔ اتنے میں پاس سے ایک چرواہا گزرا اور اس نے سلام کیا. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا!! آؤ بھئی تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ. اس نے کہا کہ میرا تو روزہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس قدر شدید ترین گرمی کے دن میں بھی روزہ رکھے ہوئے ہو اور اس حالت میں بھی بکریاں چرار ہے ہو؟
اس نے کہا: "والله انى ابا در ايامى هذه الخالية" بخدا میں ان ایام خالیہ سے حصہ وصول کر رہا ہوں. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اس کے زہد و ورع کا امتحان لینے کے لئے اس سے فرمایا ایسے کرو کہ اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہمارے ہاتھ فروخت کردو. ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور گوشت بھی دیں گے. گوشت سے تم روزہ افطار کرنا اس چرواہے نے عرض کیا کہ ان بکریوں میں سے کوئی بکری بھی میری نہیں ہے، بلکہ سب بکریاں میرے آقا کی ہیں. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا کہ تمہارے آقا کو ایک بکری نہ ملی تو وہ تمہارا کیا بگاڑ لے گا؟
اس چرواہے نے آپ سے رخ موڑ کر آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا "فاین الله؟" اللہ کہاں جائے گا؟ (یعنی بالفرض اگر میں دنیاوی آقا سے بچ بھی گیا تو اللہ تو دیکھ رہا ہے وہ تو کہیں چلا نہیں گیا اس سے بچ کر کہاں جاؤں گا )؟
حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ( چرواہے کی بات سن کر ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ بار بار چرواہے کی بات کرتے رہے، کہ دیکھو چرواہا کہہ رہا ہے "فاین اللہ" اللہ کہاں جائے گا ؟
حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے تو آپ نے اس چرواہے کے آقا سے وہ ساری بکریاں اور چرواہے کو خرید لیا پھر چرواہے کو آزاد کر کے ساری بکریاں اسے بخش دیں. (اسد الغابہ )
دربار رسالت کا یاد گار وافعہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام آۓ تو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا اپنے ابا جی حضور کے پاس جا کر ایک خادم غلام مانگ لو جس سے تم کام کاج سے بچ جاؤ گی.
تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورعلیہ وسلم کی خدمت میں شام کے وقت حاضر ہوئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹی کی بات ہے؟ عرض کیا کچھ نہیں میں آپ کو سلام کرنے آئی ہوں. اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگنے سے شرما گئیں. جب گھر لوٹیں تو حضرت علی نے کہا تم نے کیا کیا؟ فرمایا میں نے کچھ نہیں مانگا اور مجھے حیاء آگئی. پھر جب اگلی رات آئی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا تم اپنے ابا حضور کے پاس جا کر ایک خادم مانگ لو جس سے تم کام سے بیچ جاؤ. پھر وہ ابا جی کے پاس حاضر ہوئیں تو ان سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آ گئی، حتی کہ جب تیسری رات کی شام آئی تو ہم دونوں اکٹھے نکلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم کس سبب سے آئے ہو؟ تو حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ ! ہم پر کام کی مشقت ہے اس لئے ہم نے ارادہ کیا کہ آپ ہمیں ایک خادم عطاء فرمائیں جس سے ہم کام کی مشقت سے بچ جائیں.
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز بتاؤں جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہو.
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرمایا "تکبیرات" "تسبیحات" اور "تحمیدات" سو مرتبہ جب تم سونے لگو تو تم رات ہزار نیکیوں پر گزارو گے، اور اسی طرح صبح کے وقت کرو تو تم ہزار نیکیوں پر اٹھو گے.
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں جب سے میں نے یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو مجھ سے فوت نہیں ہوا مگر جنگ صفین والی رات کیونکہ میں اسے بھول گیا، یہاں تک کہ رات کے آخر میں مجھے یاد آیا تو اسی وقت پڑھ لیا. (۳۱۳ روشن ستارے)